Posts

Showing posts from 2019

Amjad Islam Amjad-Kamsin Ladki

امجد اسلام امجد کمسن لڑکی ﯾﮧ ﻋﻤﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺗﺎﺭﮮ ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﻟﮯ ﺁﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﭻ ﻣﭻ ﻣﻤﮑﻦ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ شہر ﮐﺎ ﮨﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﻋﻼﻗﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﻧﮕﻦ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﺮ ﺩﻥ ﮨﺮ ﺍﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﻌﯿّﻦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﻭﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﻮﭼﻮ، ﻭﮦ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮮ ﺍﺱ ﮐﭽﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺎﻧﮧ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﭼﻨﭽﻞ ﻟﮍﮐﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺩﻝ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺭُﮎ ﮐﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍِﮎ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍِﮎ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺑﺎﻧﭩﺘﺎ ﭘِﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺻﺒﺢِ ﺍﺯﻝ ﺳﮯ ﺷﺎﻡِ ﺍﺑﺪ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﮮ ﺳﭙﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯿﺞ ﭘﮧ ﺳﻮﻧﮯ ﺟﺎﮔﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﺌﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺗﻨﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﯿﻮﻥ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻨﻈﺮ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﻤﯿﺰ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ  🙂

Momin khan Momin Ghazal

Image
اثر اُس کو ذرا نہیں ہوتا... رنج، راحت فزا نہیں ہوتا... بے وفا کہنے کی شکایت ہے... تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا... ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم... حرفِ ناصح برا نہیں ہوتا... کس کو ہے ذوقِ تلخ کامی لیک... جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا... تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے... ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا... اُس نے کیا جانے کیا کِیا لے کر... دل کسی کام کا نہیں ہوتا... امتحان کیجئے مِرا جب تک... شوق زور آزما نہیں ہوتا... ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے... تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا... آہ طولِ امل ہے روز فزوں... گرچہ اک مُدّعا نہیں ہوتا... تم مِرے پاس ہوتے ہو گویا... جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا... حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر... ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا... رحم بر خصمِ جانِ غیر نہ ہو... سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا... دامن اُس کا جو ہے دراز تو ہو... دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا... چارۂِ دل سوائے صبر نہیں... سو تمہارے سوا نہیں ہوتا... کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومنؔ..! صنم آخر خدا نہیں ہوتا... ؎ مومن خان مومنؔ Asar Us ko Zara Nahin Hota... Ranj, Rahat-Faza Nahin Hota... Bewafa Kahne ki Shik

Ghazal Urdu poetry

Image
بچوں کی طرح وقت بتانے میں لگے ہیں دیوار پہ ہم پھول بنانے میں لگے ہیں دھونے سے بھی جاتی نہیں اس ہاتھ کی خوشبو ہم ہاتھ چھڑا کر بھی چھڑانے میں لگے ہیں لگتا ہے وہی دن ہی گزارے ہیں تیرے ساتھ وہ دن جو تجھے اپنا بنانے میں لگے ہیں لوری جو سنی تھی وہی بچوں کو سنا کر ہم دیکھے ہوئے خواب دکھانے میں لگے ہیں دیوار کے اس پار نہیں دیکھ رہے کیا یہ لوگ جو دیوار گرانے میں لگے ہیں ہر لقمہِ تر خون میں تر ہے تو عجب کیا ہم رزق نہیں ظلم کمانے میں لگے ہیں افسوس کہ یہ شہر جنہیں پال رہا ہے دیمک کی طرح شہر کو کھانے میں لگے ہیں

Naaz muzzafar abadi Ghazal

Image
پڑھنے کو بہت کچھ ہے کتابوں کے علاوہ کچھ اور پڑھو یار، نصابوں کے علاوہ کیا اور بھی کچھ لوگ یہاں جان سے گُزرے ہم عشق زدہ ، خانہ خرابوں کے علاوہ ہر روز نیا روزِ قیامت ہے زمیں پر کچھ یاد نہیں ہم کو عذابوں کے علاوہ سنتے ہیں کوئی جوگی یہاں آیا ہوا ہے تعبیر بتاتا ہے جو خوابوں کے علاوہ گر دیکھ رکھا ہو تو کوئی ہم کو بتائے دنیا کی حقیقت کو سرابوں کے علاوہ جو ناز کو پڑھتے ہیں وہ پھولوں کی دُکاں سے         کچھ اور نہیں لیتے گلابوں کے علاوہ   نازمظفرآبادی       Padhnay ko bohot kuch hay kitabon elawa                                 Kuch or padho yaar, Nisaabon k elawa kya or b kuch log yahan Jan say guzray hum ishq zaada khana kharabon k elawa Har roz naaya roz e qayamat hay zameen par kuch yaad nahi hum koazabon k elawa Suntay hain koi jogi yahan aaya hua hay Tabeer batata hay jo khuwabon k elawa Gr daykh rakha hay to koi hum ko batayae Duniya ki haqeeqat ko sarabon k elawa Jo naaz ko padhtay hain wo phoolon ki dukan hain kuch or nahi laytay Ghulabon k elawa   

Munir Niazi Ghazal

Image
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خُمار میں ہوں... تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں اِنتظار میں ہوں... مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں... میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں... درِ فصیل کُھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا... میں اَب گِری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں... بس اِتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب... رُکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں.... میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ... یہ کیسا جبر ہے؟ میں جس کے اِختیار میں ہوں... منیرؔ دیکھ شجر چاند اور دیواریں... ہوا خزاں کی ہے سر پر شبِ بہار میں ہوں... ؎ منیرؔ نیازی Yeh Kaisa Nasha hai Main Kis Ajab Khumaar mein hun... Tu Aa ke Ja bhi Chuka hai, Main intezar mein hun... Makaan hai Qabar Jise Log Khud Banate hain... Main Apne Ghar mein hun ya Main kisi Mazaar mein hun... Dar-e-Faseel Khula ya Paharr Sar se Hatta... Main ab Giri hui Galiyon ke Marg-Zar mein hun... Bas itna Hosh hai Mujh ko kh Ajnabi hain Sab... Ruka hua hun Safar mein Kisi Dayaar mein hun... Main hun bhi aur Nahi bhi Ajeeb baat

Rahat Indori Ghazal

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر  آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے راحت اندوری

GHAZAL URDU- POETRY

عشق کے نام پہ خیرات بھی لے لیتے ہیں یہ وہ صدقہ ہے جو سادات بھی لے لیتے ہیں مشکلوں میں مرے پلنے پہ تعجب کیسا جڑ سے تھوڑی سی نمو، پات بھی لے لیتے ہیں یہ جو آتے ہیں تجھے روز دلاسا دینے باتوں باتوں میں تری بات بھی لے لیتے ہیں دشت میں آئے ہیں تو، قیس سے بھی ملتے چلیں خضرِ صحرا سے ہدایات بھی لے لیتے ہیں صرف گھر تک ہی نہیں گوشہ نشینی اپنی میلوں ٹھیلوں میں اسے ساتھ بھی لے لیتے ہیں ان دنوں شعر میں بھی شعبدہ بازی ہے بہت بعض تو اوروں کی خدمات بھی لے لیتے ہیں        رانا سعید دوشی              ـ              ISHQ K NAM PE KHAIRAT B LAY LAYTAIN HAIN YAE WO SADQA HAY JO SAADAAT B LAY LAYTAY HAIN MUSHKILON MAY MERAY PALNAY PE TA'AJJUB KAISA JAD SAY THORI SI NAMO PAAT B LAY LAYTAY HAIN YAE JO AATAY HAIN TUGHE ROZ DILAASA DAYNA BATON BATON MAY TERI BAAT B LAY LAYTAY HAIN DASHT MAY AAYAE HAIN TO QAIS SAY B MILTAY CHALAIN KHIZER E SEHRA SAY HIDAYAAT B LAY LAYTAY HAIN SIRF GHAR TAK HE NAHI GOSHA NASHEENI APNI MILON THELOON MAY USAY SATH B LAY LAYTAY HAIN IN DIN

ghazal-Mubashir wasil

مرے سوا جسے سب کچھ دکھائی دیتا ہے سنا ہے آج وہ مجھ کو دہائی دیتا ہے وہ بات تک نہ کرے مجھ سے غم نہیں مجھ کو وہ دشمنوں کو مگر کیوں رسائی دیتا ہے میں روز کھڑکی سے سنتا ہوں اس کی آوازیں نجانے روز وہ کس کو صفائی دیتا ہے جسے قریب دے دکھتا نہیں مرا چہرا سنا ہے دور تک اس کو دکھائی دیتا ہے وہی مروڑ کے رکھ دے گا ایک دن واصل تو جس کے ہاتھ میں اپنی کلائی دیتا ہے مبشر واصل

Farsi ghazal-Sufiyana (Raqsaam)

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم اگرچہ قطرۂ شبنم نپوئید بر سرِ خارے منم آں قطرۂ شبنم بنوکِ خار می رقصما تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم منم عثمانِ ھارونی کہ یارے شیخِ منصورم ملامت می کند خلقے و من برَ،دار می رقصم

Tehzeeb hafi Poetry

خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا اس قدر خاک اڑاؤں گا ، قیامت کروں گا ۔ ہجر کی رات مری جان کو آٰ ئی ہوئی ہے بچ گیا تو میں محبت کی مذمت کروں گا ۔ تیری یادوں نے اگر ہاتھ بٹایا میرا اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی مرمت کروں گا ۔ جس کی چھاؤں میں تجھے پہلے پہل دیکھا تھا میں اسی پیڑ کے نیچے تیری بیعت کروں گا ۔ اب ترے راز سنبھالے نہیں جاتے مجھ سے میں کسی روز امانت میں خیانت کروں گا ۔ بس اسی ڈر سے کہ اعصاب نہ شل ہو جائیں میں اسے ہاتھ لگانے میں نہ عجلت کروں گا ۔ لیلتہ القدر گزاروں گا کسی جنگل میں نور برسے گا درختوں کی امامت کروں گا تہذیب حافی 💓

Ali zaryoun- Samjhain

خواب کا خواب حقیقت کی حقیقت سمجھیں یہ سمجھنا ہے تو پھر پہلے طریقت سمجھیں میں جواباً بھی جنہیں گالی نہیں دیتا وہ لوگ میری جانب سے اسے خاص محبت سمجھیں میں تو مر کر بھی نہ بیچوں گا کبھی یار کا نام آپ تاجر ہیں نمائش کو عبادت سمجھیں میں کسی بیچ کے رستے سے نہیں پہنچا یہاں حاسدوں سے یہ گزارش ہے ریاضت سمجھیں میرا بے ساختہ پن ان کے لئے خطرہ ہے ساختہ لوگ مجھے کیوں نہ مصیبت سمجھیں فیس بک وقت اگر دے تو یہ پیارے بچے اپنے خاموش بزرگوں کی شکایت سمجھیں پیش کرتا ہوں میں خود اپنی گرفتاری علیؔ ان سے کہنا کہ مجھے زیر حراست سمجھیں علی زریون

poetry urdu-ghazal

                  جسم کے دام کفن کو خرید کہ جس نے یہ زانی کا داغ رکھا ہ                  اس نے پتا نہیں کتنے ہی لوگوں کی آبرو کا یہ سراغ رکھا ہ  ایک لقب ملا ہے یہ یتیم ہونے پہ اور ایسا لقب ملا مجھ کو  ہاں مرے پاس یہ آبرو ہے جسے میں نے بنا کے چراغ رکھا ہے  ایسے ڈرے ہیں ہم اور ہمارے رقیب زمانےکی چال سے کہ  بازوں میں قوتِ دم ہے مگر ہم نے ساتھ میں یہ چماغ رکھا ہے  یہ مجھے ورثے میں ایسی زمینیں مل رہی ہیں کہ کیا کہوں اب میں  اشک ہیں پلکوں پہ یوں اور ان میں بھی زہر کا خاص سراغ رکھا ہے  اتنی ہے آرزو جینے کی , روز غموں کا پیالہ لے کر بھی میں عافی  یہ مرے جسم کی ان رگوں نے جینےکا بڑا اچھا دماع رکھا ہے

کیا یہی زندگی کا مقصد ہے

Image
تحریر :نیک بانو عنوان :کیا یہی زندگی کا مقصد ہے, انسان اس دنیا میں آتا ہے زندگی بسر کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔کچھ اپنے اچھے اعمال کے ساتھ اور کچھ گناہ کا ارتکاب کر کے۔کچھ انسانوں سے ہی بد دعا لے کے ۔ اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔بدقسمتی سے انسان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کو اس زندگی کا مقصد بھی نہیں پتہ اور نہ یہ جانتے ہیں ۔کہ کس مقصد کے تحت اسے اس دنیا میں اتنا عظیم رتبہ دے کے بھیجا گیا بے مقصد زندگی کا کیا فائدہ۔جس میں صرف منا فقت ہو ، اپنی غرض ہو ، اپنا مقصد ہو ، انسان کو تکلیف دینا ہو اس سے اس کی خوشی چھیننا ۔اسے کرب میں مبتلا کرنا اور اپنی ذات سے آگے کچھ نہ ہو۔جس میں نہ تو انسان ہونے کا شرف مل رہا اور نہ ہی زندگی کا مقصد وہ حاصل کر رہا۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلو قات کہ کر نوازا مگر انسانوں نے نہ نیکی دیکھی نہ اپنا رتبہ نہ رشتہ بس تکلیف دی اور رلایا اور میں نے اس کی زندگی میں کسی نیکی کو بھی نہیں دیکھا۔نہ اللہ کی عبادت اور نہ اس کا شکرانہ بقول شاعر زندگی آمد برائے زندگی زندگی بے بندگی شرمندگی میں نے یہ بھی دیکھا کہ دنیا میں جتنے بھی منافقت کے کھلاڈی ہیں وہ انسا نوں کی زندگی

Muharram Poetry Urdu

ترے بیٹوں کو کہتے ہیں جواناںِ جناں بی بی س  تیری چھوکٹ کا پتھر ہی درِ الماس بننتا ہے جسے عصمت ملے تیری اُسے کیتے ہیں سب زینب س دعا جس کو ملے تیری وہی عباس بنتا ہے سلمان عا ظمی جنت کی آرزو میں کہاں جا رہے ہیں لوگ جنت تو کربلا میں خریدا حُسین نے دنیا و آخرت میں جو رہنا ہے چین سے جینا علی سے سیکھ لو مرنا حُسین سے
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی عید اب کے بھی دبے پاوَں گزر جائے گی         ظفر اقبال

Sher,Urdu sad poetry

قصہ ابھی حجاب سےآگےنہیں بڑھا، میں" آپ"وہ "جناب"سےآگےنہیں بڑھا، مدت ھوئی کتابِ محبت شروع کیے، لیکن میں پہلے باب سے آگے نہیں بڑھا، لمبی مسافتیں ہیں مگر اس سوار کا، پاؤں ابھی رکاب سےآگے نہیں بڑھا طولِ کلام کے لیےمیں نے کیے سوال، وہ مختصر جواب سے آگے نہیں بڑھا، لوگوں نے سنگ و خشت کے قلعے بنا لیے اپنا محل تو خواب سے آگے نہیں بڑھا رخسار کا پتہ نہیں آنکھیں تو خوب ھیں، دیدار ابھی نقاب سے آگے نہیں بڑھا، وہ لذتِ گناہ سے محروم رہ گیا جو خواھشِ ثواب سے آگے نہیں بڑھا. ---------------------------------------------------------------------------- Qissa Abhi Hijjab Se Aagay Nahi Barha Mein Aap, Woh, Janab Se Aagay Nahi Barha Muddat Hui Kitab-e-Mohabbat Shurru Kiye Lekin Mein Pehle Baab Se Aagay Nahi Barha Lambi Musawatein hein Magar Iss Sawar Ka Paaon Abhi Raqaab Se Aagay Nahi Barha Tool-e-Kalam Kay Liye Mein Ne Kiye Sawal Woh Mukhtassar

Ali Zaryoun Ghazal

Image
پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے  میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے  اصولی طور پہ مر جانا چاہیے تھا مگر  مجھے سکون ملا ہے تجھے جدا کر کے  یہ کیوں کہا کہ تجھے مجھ سے پیار ہو جائے   تڑپ اٹھا ہوں ترے حق میں بد دعا کر کے  میں چاہتا ہوں خریدار پر یہ کھل جائے   نیا نہیں ہوں رکھا ہوں یہاں نیا کر کے میں جوتیوں میں بھی بیٹھا ہوں پورے مان کے ساتھ   کسی نے مجھ کو بلایا ہے التجا کر کے  بشر سمجھ کے کیا تھا نا یوں نظر انداز   لے میں بھی چھوڑ رہا ہوں تجھے خدا کر کے  تو پھر وہ روتے ہوئے منتیں بھی مانتے ہیں   جو انتہا نہیں کرتے ہیں ابتدا کر کے  بدل چکا ہے مرا لمس نفسیات اس کی   کہ رکھ دیا ہے اسے میں نے ان چھوا کر کے  منا بھی لوں گا گلے بھی لگاؤں گا میں علیؔ   ابھی تو دیکھ رہا ہوں اسے خفا کر کے علی زریون

Ali Zaryoun-"tumhari to nahi hay"

Image
حالت جو ہماری ہے تمہاری تو نہیں ہے ایسا ہے تو پھر یہ کوئی یاری تو نہیں ہے تحقیر نہ کر یہ میری اودھڈی ہوئی گودھڈی  جیسی بھی ہے اپنی ہے ادھاری تو نہیں ہے یہ تو جو محبت میں صلحہ مانگ رہا ہے اے شخص تو اندر سے بھکاری تو نہیں ہے  مجعمے سے اُسے یوں بھی بہت چڈھ ہے کہ زریوں  عاشق ہے میری جان مداری تو نہیں ہے        علی زریون 

Ali zaryoun- "Janay day"

Image
قربتِ لمس کو گالی نہ بنا جانے دے پیار میں جسم کو یکسر نہ مٹا جانے دے تو جو ہر روز نئے حُسن پہ مر جاتا ہے  تو بتائے گا مجھے عشق ہے کیا جانے دے چائے پیتے ہیں کہیں بیٹھ کہ دونو بھائی  جا چکی ہے نا تو بس چھوڈ چل آ جانے دے  تو کی جنگل میں لگی آگ سی بےساختہ ہے  خود پہ تہزیب کی چادر نہ چڈھا جابے دے  جابتا ہوں کہ تجھے کون سی تھی مجبوری  یوں میرے سامنے ٹسوئے نہ بہا جانے دے         جناب علی زریون  

Urdu Poetry

Image
                                       مُصوَروں سے بنائی ہی جا سکی نہ تیری آنا کی تصویر نہ بے حسی کی غرور کی اور نہ تیری حسنِ بلا کی تصویر قضا کی یا خیمہ گاہ کی یا پھر بلند نوکِ سِنا کی تصویر  یہ رنگ و کاغز میں قید ہوتی نہیں ہے کربوبلا کی تصویر بنا کہ کاغز وجود کو دھڈکنوں کی سیاہی سے رنگ بھر ک بنا رہا ہے کوئی فرشتہ مجھ ہی میں میری قضا کی تصویر ایاز حسین تاثیر

Rahat indori poetry

Image
میں پربتوں سے لڈتا رہا اور چند لوگ گیلی زمین کھود کہ فرہاد ہوگئے ___________________________ نئے کردار آتے جارہے ہیں مگر ناٹک پرانہ چل رہا ہے --------------------------------------------- وہ چاہتا تھا کہ کاسا خرید لے میرا میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کہ لوٹ آیا  ______________________________     جناب راحت اندوری

Valentines day poetry

Image

Biography of Jaun Elia

Image
                                                Jaun Elia  Jaun Elia was born on December 14, 1931 in a distinguished family of Amroha, Uttar Pradesh. He was the youngest of his siblings. His father, Allama Shafiq Hasan Elia, was deeply involved in art and literature and also an astrologer and a poet. This literary environment modeled him along the same lines, and he wrote his first Urdu couplet when he was just 8 years. His first poetry collection Shayad  ("Maybe") was published when he was 60. The poetry presented in this collection added Jaun Elia's name in the Urdu literary canon forever. Jaun Elia's preface in this collection provided deep insights into his works and the culture within which he was expressing his ideas. The preface can also be considered as one of the finest examples of modern Urdu prose. It covered his intellectual evolution in different periods of time, and his philosophy of poetry, science, religion, etc. The second collection of his

urdu poetry

Image
قبر کی نیند کیوں نہ میٹھی ہے عمر بھر کی تھکان ہوتی ہے راشد خان عاشرؔ                                                                    

Urdu ghazal

Image
  ذہن مصروف چھان بین میں ہے نقص دل میں ہے یا مکین میں ہے اس میں دشمن بھی زخم کھاتا نہیں تو مرے دل کی سرزمین میں ہے خواب دکھلا کے ساتھ چھوڑتی ہے زندگی بھی منافقین میں ہے اک صدا ہی کا فاصلہ ہے یہ کونسا رینج روڈ چین میں ہے سانپ ہوتا تو ٹھیک تھا لیکن آدمی تیرے آستین میں ہے میری نظروں میں بد عقیدہ ہے جو محبت کے منکرین میں ہے ورنہ اس عشق میں شکست نہیں کچھ ملاوٹ ترے یقین میں ہے میری نظروں میں ایک چہرہ ہے ایک چہرہ جو قارئین میں ہے تہذیب حسین

Urdu ghazal (Nayae Shora)

Image
    میں چاہتا ہوں محبت میں معجزہ بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں مگر کوئی مسٔلہ بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں خدا پر یقین ہو میرا میں چاہتا ہوں زمیں پر کوئی خدا بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں مجھے دوسری محبت ہو میں چاہتا ہوں کہانی میں کچھ نیا بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں قبیلے میں نام ہو میرا میں چاہتا ہوں قبیلے سے واسطہ بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں جدائی کا موڑ آجائے میں چاہتا ہوں محبت میں راستہ بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں کہ وہ شخص ٹوٹ کر آئے میں چاہتا ہوں مرے پاس مشورہ بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں تمھیں بات بات پر ٹوکوں میں چاہتا ہوں تمھاری کوئی سزا بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں مری جان بھی چلی جائے میں چاہتا ہوں مرے ساتھ حادثہ بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں ترے نام ایک نظم کہوں میں چاہتا ہوں ترا اُس میں تذکرہ بھی نہ ہو میں چاہتا ہوں کہ شہزاد آ ملے مجھ سے میں چاہتا ہوں وہ لڑکا بجھا بجھا بھی نہ ہو شہزاد مھدیؔ