Ali Zaryoun Ghazal
پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے 
میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے 
اصولی طور پہ مر جانا چاہیے تھا مگر 
مجھے سکون ملا ہے تجھے جدا کر کے 
یہ کیوں کہا کہ تجھے مجھ سے پیار ہو جائے 
تڑپ اٹھا ہوں ترے حق میں بد دعا کر کے 
میں چاہتا ہوں خریدار پر یہ کھل جائے 
نیا نہیں ہوں رکھا ہوں یہاں نیا کر کے
میں جوتیوں میں بھی بیٹھا ہوں پورے مان کے ساتھ 
کسی نے مجھ کو بلایا ہے التجا کر کے 
بشر سمجھ کے کیا تھا نا یوں نظر انداز 
لے میں بھی چھوڑ رہا ہوں تجھے خدا کر کے 
تو پھر وہ روتے ہوئے منتیں بھی مانتے ہیں 
جو انتہا نہیں کرتے ہیں ابتدا کر کے 
بدل چکا ہے مرا لمس نفسیات اس کی 
کہ رکھ دیا ہے اسے میں نے ان چھوا کر کے 
منا بھی لوں گا گلے بھی لگاؤں گا میں علیؔ 
ابھی تو دیکھ رہا ہوں اسے خفا کر کے
علی زریون

 
 
 
Comments
Post a Comment