Posts

Showing posts from October, 2019

Ghazal Urdu poetry

Image
بچوں کی طرح وقت بتانے میں لگے ہیں دیوار پہ ہم پھول بنانے میں لگے ہیں دھونے سے بھی جاتی نہیں اس ہاتھ کی خوشبو ہم ہاتھ چھڑا کر بھی چھڑانے میں لگے ہیں لگتا ہے وہی دن ہی گزارے ہیں تیرے ساتھ وہ دن جو تجھے اپنا بنانے میں لگے ہیں لوری جو سنی تھی وہی بچوں کو سنا کر ہم دیکھے ہوئے خواب دکھانے میں لگے ہیں دیوار کے اس پار نہیں دیکھ رہے کیا یہ لوگ جو دیوار گرانے میں لگے ہیں ہر لقمہِ تر خون میں تر ہے تو عجب کیا ہم رزق نہیں ظلم کمانے میں لگے ہیں افسوس کہ یہ شہر جنہیں پال رہا ہے دیمک کی طرح شہر کو کھانے میں لگے ہیں

Naaz muzzafar abadi Ghazal

Image
پڑھنے کو بہت کچھ ہے کتابوں کے علاوہ کچھ اور پڑھو یار، نصابوں کے علاوہ کیا اور بھی کچھ لوگ یہاں جان سے گُزرے ہم عشق زدہ ، خانہ خرابوں کے علاوہ ہر روز نیا روزِ قیامت ہے زمیں پر کچھ یاد نہیں ہم کو عذابوں کے علاوہ سنتے ہیں کوئی جوگی یہاں آیا ہوا ہے تعبیر بتاتا ہے جو خوابوں کے علاوہ گر دیکھ رکھا ہو تو کوئی ہم کو بتائے دنیا کی حقیقت کو سرابوں کے علاوہ جو ناز کو پڑھتے ہیں وہ پھولوں کی دُکاں سے         کچھ اور نہیں لیتے گلابوں کے علاوہ   نازمظفرآبادی       Padhnay ko bohot kuch hay kitabon elawa                                 Kuch or padho yaar, Nisaabon k elawa kya or b kuch log yahan Jan say guzray hum ishq zaada khana kharabon k elawa Har roz naaya roz e qayamat hay zameen par kuch yaad nahi hum koazabon k elawa Suntay hain koi jogi yahan aaya hua hay Tabeer batata hay jo khuwabon k elawa Gr daykh rakha hay to koi hum ko batayae Duniya ki haqeeqat ko sarabon k elawa Jo naaz ko padhtay hain wo phoolon ki dukan hain kuch or nahi laytay Ghulabon k elawa   

Munir Niazi Ghazal

Image
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خُمار میں ہوں... تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں اِنتظار میں ہوں... مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں... میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں... درِ فصیل کُھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا... میں اَب گِری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں... بس اِتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب... رُکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں.... میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ... یہ کیسا جبر ہے؟ میں جس کے اِختیار میں ہوں... منیرؔ دیکھ شجر چاند اور دیواریں... ہوا خزاں کی ہے سر پر شبِ بہار میں ہوں... ؎ منیرؔ نیازی Yeh Kaisa Nasha hai Main Kis Ajab Khumaar mein hun... Tu Aa ke Ja bhi Chuka hai, Main intezar mein hun... Makaan hai Qabar Jise Log Khud Banate hain... Main Apne Ghar mein hun ya Main kisi Mazaar mein hun... Dar-e-Faseel Khula ya Paharr Sar se Hatta... Main ab Giri hui Galiyon ke Marg-Zar mein hun... Bas itna Hosh hai Mujh ko kh Ajnabi hain Sab... Ruka hua hun Safar mein Kisi Dayaar mein hun... Main hun bhi aur Nahi bhi Ajeeb baat

Rahat Indori Ghazal

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر  آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے راحت اندوری

GHAZAL URDU- POETRY

عشق کے نام پہ خیرات بھی لے لیتے ہیں یہ وہ صدقہ ہے جو سادات بھی لے لیتے ہیں مشکلوں میں مرے پلنے پہ تعجب کیسا جڑ سے تھوڑی سی نمو، پات بھی لے لیتے ہیں یہ جو آتے ہیں تجھے روز دلاسا دینے باتوں باتوں میں تری بات بھی لے لیتے ہیں دشت میں آئے ہیں تو، قیس سے بھی ملتے چلیں خضرِ صحرا سے ہدایات بھی لے لیتے ہیں صرف گھر تک ہی نہیں گوشہ نشینی اپنی میلوں ٹھیلوں میں اسے ساتھ بھی لے لیتے ہیں ان دنوں شعر میں بھی شعبدہ بازی ہے بہت بعض تو اوروں کی خدمات بھی لے لیتے ہیں        رانا سعید دوشی              ـ              ISHQ K NAM PE KHAIRAT B LAY LAYTAIN HAIN YAE WO SADQA HAY JO SAADAAT B LAY LAYTAY HAIN MUSHKILON MAY MERAY PALNAY PE TA'AJJUB KAISA JAD SAY THORI SI NAMO PAAT B LAY LAYTAY HAIN YAE JO AATAY HAIN TUGHE ROZ DILAASA DAYNA BATON BATON MAY TERI BAAT B LAY LAYTAY HAIN DASHT MAY AAYAE HAIN TO QAIS SAY B MILTAY CHALAIN KHIZER E SEHRA SAY HIDAYAAT B LAY LAYTAY HAIN SIRF GHAR TAK HE NAHI GOSHA NASHEENI APNI MILON THELOON MAY USAY SATH B LAY LAYTAY HAIN IN DIN

ghazal-Mubashir wasil

مرے سوا جسے سب کچھ دکھائی دیتا ہے سنا ہے آج وہ مجھ کو دہائی دیتا ہے وہ بات تک نہ کرے مجھ سے غم نہیں مجھ کو وہ دشمنوں کو مگر کیوں رسائی دیتا ہے میں روز کھڑکی سے سنتا ہوں اس کی آوازیں نجانے روز وہ کس کو صفائی دیتا ہے جسے قریب دے دکھتا نہیں مرا چہرا سنا ہے دور تک اس کو دکھائی دیتا ہے وہی مروڑ کے رکھ دے گا ایک دن واصل تو جس کے ہاتھ میں اپنی کلائی دیتا ہے مبشر واصل

Farsi ghazal-Sufiyana (Raqsaam)

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم اگرچہ قطرۂ شبنم نپوئید بر سرِ خارے منم آں قطرۂ شبنم بنوکِ خار می رقصما تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم منم عثمانِ ھارونی کہ یارے شیخِ منصورم ملامت می کند خلقے و من برَ،دار می رقصم

Tehzeeb hafi Poetry

خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا اس قدر خاک اڑاؤں گا ، قیامت کروں گا ۔ ہجر کی رات مری جان کو آٰ ئی ہوئی ہے بچ گیا تو میں محبت کی مذمت کروں گا ۔ تیری یادوں نے اگر ہاتھ بٹایا میرا اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی مرمت کروں گا ۔ جس کی چھاؤں میں تجھے پہلے پہل دیکھا تھا میں اسی پیڑ کے نیچے تیری بیعت کروں گا ۔ اب ترے راز سنبھالے نہیں جاتے مجھ سے میں کسی روز امانت میں خیانت کروں گا ۔ بس اسی ڈر سے کہ اعصاب نہ شل ہو جائیں میں اسے ہاتھ لگانے میں نہ عجلت کروں گا ۔ لیلتہ القدر گزاروں گا کسی جنگل میں نور برسے گا درختوں کی امامت کروں گا تہذیب حافی 💓