Ghazal Urdu poetry
بچوں کی طرح وقت بتانے میں لگے ہیں دیوار پہ ہم پھول بنانے میں لگے ہیں دھونے سے بھی جاتی نہیں اس ہاتھ کی خوشبو ہم ہاتھ چھڑا کر بھی چھڑانے میں لگے ہیں لگتا ہے وہی دن ہی گزارے ہیں تیرے ساتھ وہ دن جو تجھے اپنا بنانے میں لگے ہیں لوری جو سنی تھی وہی بچوں کو سنا کر ہم دیکھے ہوئے خواب دکھانے میں لگے ہیں دیوار کے اس پار نہیں دیکھ رہے کیا یہ لوگ جو دیوار گرانے میں لگے ہیں ہر لقمہِ تر خون میں تر ہے تو عجب کیا ہم رزق نہیں ظلم کمانے میں لگے ہیں افسوس کہ یہ شہر جنہیں پال رہا ہے دیمک کی طرح شہر کو کھانے میں لگے ہیں