Itbak Ibrak Poetry
اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے
اس کی گلی گئے تو خریدار بک گئے
اس کی گلی گئے تو خریدار بک گئے
لگنے لگیں ہیں مجھ سے بھی ناقص کی بولیاں
یعنی جہاں کے سارے ہی شہکار بک گئے
جس نے ہمیں خریدا منافع کما لیا
اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بک گئے
انجام یہ نہیں تھا کہانی کا اصل میں
کیا کیجئے کہ بیچ میں کردار بک گئے
جنگل کی دھوپ میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا
قیمت لگی تو دیکھئے اشجار بک گئے
اتنا تو فرق ہے چلو اپنوں میں غیر میں
اپنے تھے شرم سار، مگر یار بک گئے
مت پوچھ ان کا بکتے محبت کے مول جو
روئے تمام عمر کہ بے کار بک گئے
کیجے شکایتیں بھلا اب کس کے روبرو
قاضی بکا یہاں، یہاں دربار بک گئے
تلوار کی جگہ وہاں بنتی ہیں چوڑیاں
جس جس قبیلے کے یہاں سردار بک گئے
لازم ہے رکھئے اپنی نظر آستین پر
سننے میں آ رہا ہے نمک خوار بک گئے
ابرک وفا کشی کا کوئی بیج تجھ میں ہے
یونہی نہیں ہیں سارے طلب گار بک گئے
.......... اتباف ابرک
Comments
Post a Comment