Posts

Amin Sheikh Poetry Urdu

Image
یہ دل کہ جان کو آیا ہوا تھا کیا کرتا نیا نیا وہ پرایا ہوا تھا کیا کرتا پٹخ رہی تھی اَ دھر سے اُدھر حیات مجھے میں اس کے ہاتھ میں آیا ہوا تھا کیا کرتا نہ چاہتے مجھے دُشمن کے ساتھ چلنا پڑا میں دوستوں کا ستایا ہوا تھا کیا کرتا وہ جس کے سائے سے ہمسائے فیض یاب ہوئے وہ پیڑ میرا لگایا ہوا تھا کیا کرتا بنی نہیں جو زمیں سے قصور کیا میرا میں آسمان سے لایا ہوا تھا کیا کرتا وہ جس پے بند کیے میں نے گھر کے دروازے وہ میرے خواب میں آیا ہوا تھا کیا کرتا میں واقعے کا اکیلا گواہ تھا اور امینؔ میں یرغمال بنایا ہوا تھا کیا کرتا امینؔ شیخ

Itbak Ibrak Poetry

اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے اس کی گلی گئے تو خریدار بک گئے لگنے لگیں ہیں مجھ سے بھی ناقص کی بولیاں یعنی جہاں کے سارے ہی شہکار بک گئے جس نے ہمیں خریدا منافع کما لیا اپنا ہے یہ کمال کہ ہر بار بک گئے انجام یہ نہیں تھا کہانی کا اصل میں کیا کیجئے کہ بیچ میں کردار بک گئے جنگل کی دھوپ میں بھی نہ سایہ ہمیں ملا قیمت لگی تو دیکھئے اشجار بک گئے اتنا تو فرق ہے چلو اپنوں میں غیر میں اپنے تھے شرم سار، مگر یار بک گئے مت پوچھ ان کا بکتے محبت کے مول جو روئے تمام عمر کہ بے کار بک گئے کیجے شکایتیں بھلا اب کس کے روبرو قاضی بکا یہاں، یہاں دربار بک گئے تلوار کی جگہ وہاں بنتی ہیں چوڑیاں جس جس قبیلے کے یہاں سردار بک گئے لازم ہے رکھئے اپنی نظر آستین پر سننے میں آ رہا ہے نمک خوار بک گئے ابرک وفا کشی کا کوئی بیج تجھ میں ہے یونہی نہیں ہیں سارے طلب گار بک گئے .......... اتباف ابرک

Amjad Islam Amjad-Kamsin Ladki

امجد اسلام امجد کمسن لڑکی ﯾﮧ ﻋﻤﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺗﺎﺭﮮ ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﻟﮯ ﺁﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﭻ ﻣﭻ ﻣﻤﮑﻦ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ شہر ﮐﺎ ﮨﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﻋﻼﻗﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﻧﮕﻦ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﺮ ﺩﻥ ﮨﺮ ﺍﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﻌﯿّﻦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﻭﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﻮﭼﻮ، ﻭﮦ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮮ ﺍﺱ ﮐﭽﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺎﻧﮧ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﭼﻨﭽﻞ ﻟﮍﮐﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺩﻝ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺭُﮎ ﮐﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍِﮎ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍِﮎ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺑﺎﻧﭩﺘﺎ ﭘِﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺻﺒﺢِ ﺍﺯﻝ ﺳﮯ ﺷﺎﻡِ ﺍﺑﺪ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﮮ ﺳﭙﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯿﺞ ﭘﮧ ﺳﻮﻧﮯ ﺟﺎﮔﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﺌﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺗﻨﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﯿﻮﻥ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻨﻈﺮ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﻤﯿﺰ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ  🙂

Momin khan Momin Ghazal

Image
اثر اُس کو ذرا نہیں ہوتا... رنج، راحت فزا نہیں ہوتا... بے وفا کہنے کی شکایت ہے... تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا... ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم... حرفِ ناصح برا نہیں ہوتا... کس کو ہے ذوقِ تلخ کامی لیک... جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا... تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے... ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا... اُس نے کیا جانے کیا کِیا لے کر... دل کسی کام کا نہیں ہوتا... امتحان کیجئے مِرا جب تک... شوق زور آزما نہیں ہوتا... ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے... تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا... آہ طولِ امل ہے روز فزوں... گرچہ اک مُدّعا نہیں ہوتا... تم مِرے پاس ہوتے ہو گویا... جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا... حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر... ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا... رحم بر خصمِ جانِ غیر نہ ہو... سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا... دامن اُس کا جو ہے دراز تو ہو... دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا... چارۂِ دل سوائے صبر نہیں... سو تمہارے سوا نہیں ہوتا... کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومنؔ..! صنم آخر خدا نہیں ہوتا... ؎ مومن خان مومنؔ Asar Us ko Zara Nahin Hota... Ranj, Rahat-Faza Nahin Hota... Bewafa Kahne ki Shik

Ghazal Urdu poetry

Image
بچوں کی طرح وقت بتانے میں لگے ہیں دیوار پہ ہم پھول بنانے میں لگے ہیں دھونے سے بھی جاتی نہیں اس ہاتھ کی خوشبو ہم ہاتھ چھڑا کر بھی چھڑانے میں لگے ہیں لگتا ہے وہی دن ہی گزارے ہیں تیرے ساتھ وہ دن جو تجھے اپنا بنانے میں لگے ہیں لوری جو سنی تھی وہی بچوں کو سنا کر ہم دیکھے ہوئے خواب دکھانے میں لگے ہیں دیوار کے اس پار نہیں دیکھ رہے کیا یہ لوگ جو دیوار گرانے میں لگے ہیں ہر لقمہِ تر خون میں تر ہے تو عجب کیا ہم رزق نہیں ظلم کمانے میں لگے ہیں افسوس کہ یہ شہر جنہیں پال رہا ہے دیمک کی طرح شہر کو کھانے میں لگے ہیں

Naaz muzzafar abadi Ghazal

Image
پڑھنے کو بہت کچھ ہے کتابوں کے علاوہ کچھ اور پڑھو یار، نصابوں کے علاوہ کیا اور بھی کچھ لوگ یہاں جان سے گُزرے ہم عشق زدہ ، خانہ خرابوں کے علاوہ ہر روز نیا روزِ قیامت ہے زمیں پر کچھ یاد نہیں ہم کو عذابوں کے علاوہ سنتے ہیں کوئی جوگی یہاں آیا ہوا ہے تعبیر بتاتا ہے جو خوابوں کے علاوہ گر دیکھ رکھا ہو تو کوئی ہم کو بتائے دنیا کی حقیقت کو سرابوں کے علاوہ جو ناز کو پڑھتے ہیں وہ پھولوں کی دُکاں سے         کچھ اور نہیں لیتے گلابوں کے علاوہ   نازمظفرآبادی       Padhnay ko bohot kuch hay kitabon elawa                                 Kuch or padho yaar, Nisaabon k elawa kya or b kuch log yahan Jan say guzray hum ishq zaada khana kharabon k elawa Har roz naaya roz e qayamat hay zameen par kuch yaad nahi hum koazabon k elawa Suntay hain koi jogi yahan aaya hua hay Tabeer batata hay jo khuwabon k elawa Gr daykh rakha hay to koi hum ko batayae Duniya ki haqeeqat ko sarabon k elawa Jo naaz ko padhtay hain wo phoolon ki dukan hain kuch or nahi laytay Ghulabon k elawa   

Munir Niazi Ghazal

Image
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خُمار میں ہوں... تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں اِنتظار میں ہوں... مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں... میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں... درِ فصیل کُھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا... میں اَب گِری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں... بس اِتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب... رُکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں.... میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ... یہ کیسا جبر ہے؟ میں جس کے اِختیار میں ہوں... منیرؔ دیکھ شجر چاند اور دیواریں... ہوا خزاں کی ہے سر پر شبِ بہار میں ہوں... ؎ منیرؔ نیازی Yeh Kaisa Nasha hai Main Kis Ajab Khumaar mein hun... Tu Aa ke Ja bhi Chuka hai, Main intezar mein hun... Makaan hai Qabar Jise Log Khud Banate hain... Main Apne Ghar mein hun ya Main kisi Mazaar mein hun... Dar-e-Faseel Khula ya Paharr Sar se Hatta... Main ab Giri hui Galiyon ke Marg-Zar mein hun... Bas itna Hosh hai Mujh ko kh Ajnabi hain Sab... Ruka hua hun Safar mein Kisi Dayaar mein hun... Main hun bhi aur Nahi bhi Ajeeb baat