Amin Sheikh Poetry Urdu
یہ دل کہ جان کو آیا ہوا تھا کیا کرتا نیا نیا وہ پرایا ہوا تھا کیا کرتا پٹخ رہی تھی اَ دھر سے اُدھر حیات مجھے میں اس کے ہاتھ میں آیا ہوا تھا کیا کرتا نہ چاہتے مجھے دُشمن کے ساتھ چلنا پڑا میں دوستوں کا ستایا ہوا تھا کیا کرتا وہ جس کے سائے سے ہمسائے فیض یاب ہوئے وہ پیڑ میرا لگایا ہوا تھا کیا کرتا بنی نہیں جو زمیں سے قصور کیا میرا میں آسمان سے لایا ہوا تھا کیا کرتا وہ جس پے بند کیے میں نے گھر کے دروازے وہ میرے خواب میں آیا ہوا تھا کیا کرتا میں واقعے کا اکیلا گواہ تھا اور امینؔ میں یرغمال بنایا ہوا تھا کیا کرتا امینؔ شیخ